وزارت اعلیٰ ہمارا حق ہے ملا تو ٹھیک ورنہ بھیک نہیں مانگیں گے ، سردار اختر مینگل

  • July 31, 2018, 11:15 pm
  • National News
  • 304 Views

کوئٹہ(سٹاف رپورٹر) بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سرداراخترجان مینگل نے عام انتخابات کے نتائج سے متعلق اعلیٰ سطحی کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاہے کہ ان کی جما عت کے نا مزد امیدواران کی جیت کوتا خیری حربے استعما ل کر کے ہا ر میں تبدیل کیا گیا ، دھاندلی میں ملوث آراوز اور دیگر ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے ،وزیر اعلیٰ بلو چستان کا عہدہ ہما را حق ہے ملا تو ٹھیک ورنہ اس کے لئے بھیک نہیں ما نگیں گے ،مجھے کچھ لو گ مبا رکبا د دینے آئے تھے جبکہ بعض مجھ سے مبا رکبا د لینے آئے تھے ،سال 2018ء کے انتخابات کے قومی اور صوبائی اسمبلی کے مختلف حلقوں پر ان کی جماعت کے نامزدامیدواران کی جیت کو ہار میں تبدیل کردیاگیاہے جسے انہوں نے آراوز کے پاس چیلنج کیاہے بلکہ وہ دیگر فورمزپر بھی اسے چیلنج کرینگے ،جن حلقوں کے متعلق سیاسی جماعتوں اور آزادامیدواران کو خدشات اور تحفظات ہیں انہیں دوبارہ کھولاجائے ،صوبائی اور مرکزی سطح پر مذاکرات کیلئے کمیٹیاں تشکیل دیدی ہیں جو مختلف جماعتوں اور آزادامیدواران کے ساتھ مذاکرات کرینگے ،ابھی تک صوبے یا مرکز میں رہنے کا فیصلہ نہیں کیا ہمارے تمام فیصلے پارٹی اور ادارے کرتے ہیں وہ جو بھی فیصلہ کرینگے اسے ہم تسلیم کرینگے ،لاپتہ افراد کی بازیابی ،امن وامان کا قیام ،کرپشن کا خاتمہ اور ساحل وسائل پر اختیار اور کینسر ہسپتال کا قیام ہمارے مطالبات میں شامل ہیں جوبھی اسے تسلیم کرے اس کے ساتھ بات کرنے کو تیار ہیں ۔ان خیالات کااظہار انہوں نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سرداراخترجان مینگل کاکہناتھاکہ 2018ء کے انتخابات میں حب سے لیکر کوئٹہ ،کوئٹہ سے لیکر جیونی ،جیونی سے لیکر دالبندین جہاں بھی بلوچستان نیشنل پارٹی کے نامزد امیدواران انتخابات میں حصہ لے رہے تھے ،وہاں کی عوام چاہے ان کا تعلق کسی بھی فرقے ،نسل ،مذہب اور زبان سے کیوں نہ ہونے بھرپور انداز سے بی این پی کے امیدواران کو سپورٹ کیا ہم پارٹی اور قائدین کی جانب سے تمام ورکرز اور ہمدردوں کا شکریہ اداکرتے ہیں ،جس انداز سے لوگ پولنگ کے دن بلوچستان نیشنل پارٹی کیلئے نکلے اسے ہماری 1970ء کی نیشنل عوامی پارٹی کی یاد تازہ ہوگئی کیونکہ اس وقت لوگ نیشنل عوامی پارٹی کے لئے جوش اور جذبے کے تحت نکلے تھے بالکل وہی جوش اور جذبہ ہم نے 2018ء کے انتخابات میں دیکھا اور ہماری وہی یادیں تازہ ہوگئیں لیکن عوام کے اس مینڈیٹ کی جو1970ء میں بلوچستان نیشنل پارٹی کو ملا تو احترام نہیں کیاگیا حالیہ انتخابات میں بھی عوام نے جو مینڈیٹ ہمیں دیا نتائج اس سے یکسرمختلف ہیں ،کئی ایسے حلقے ہیں جہاں ہمارے جیتے ہوئے امیدواروں کی جیت کو ہار میں بدل دیاگیاہے یہ پہلاالیکشن نہیں بلکہ اس سے قبل بھی الیکشن ہوتے رہے اور ہماری جماعت نے ان تمام میں حصہ لیاہے لیکن یہ اپنی نوعیت کا مختلف الیکشن تھا جس میں پولنگ سے لیکر نتائج تک تاخیری حربے استعمال کئے گئے پولنگ کے عمل کو روکنے کیلئے مختلف حیلے بہانے کئے گئے کئی پر سٹاف نہ پہنچنے تو کہی پر سامان نہ پہنچنے کا کہتے رہے تو کہیں پر سیکورٹی کے مسائل بتائے گئے بہت سے ایسے پولنگ اسٹیشنز تھے جہاں ووٹنگ کا عمل ایک ،ڈیڑھ بجے تک شروع ہی نہیں کیا گیا ،سب سے اہم بات یہ ہے کہ انتخابات کے نتائج کا صبح2بجے تک اعلان کیاجاناتھا ان میں 24سے لیکر 72گھنٹے تک تاخیر کیاگیاہم حیران اس لئے ہے کہ کمیونکیشن کے تمام تر ذرائع ہونے کے باوجود یہ تاخیر کیوں کی گئی پہلے سڑکیں اور دیگر سہولتیں نہیں تھی مگر اب تو ہر گاؤں اور گھر میں موبائل فون موجود ہیں ،اس زمانے میں بھی صبح 8سے 10بجے تک پولنگ کے نتائج پہنچ جایاکرتے تھے اور ان کااعلان کیاجاکرتاتھا۔ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں نامزد امیدوار اور ان کے امیدواروں کو بیٹھنے کی اجازت ہوتی تھی اور ان کے سامنے مختلف پولنگ کے نتائج آتے تھے اور انہیں اکھٹاکرکے اعلان کیاجاتاتھا لیکن اس الیکشن میں طریقہ کارمختلف تھا نتائج آتے رہے مگر کس کے پاس آتے رہے کون گنتی کرتا رہا کون جمع کرتا رہا کس پولنگ سے کیا نتیجہ آیا ؟کسی کو کچھ پتہ نہیں میں خود قومی اسمبلی کی2اور صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے سے امیدوار تھا مگر ہمیں رزلٹ کے متعلق کچھ معلوم نہیں تھا نہ ہی کسی کو بیٹھنے کی اجازت تھی حتی کے پولنگ کے دن بھی پولنگ اسٹیشن پر امیدواروں کو جانے کی اجازت نہ تھی اس سے الیکشن کی شفافیت پر ایک نہیں بلکہ کئی نشان اٹھتے ہیں ،این اے270، این اے 272،این اے 271، این اے 264،این اے 265،این اے 267،پی بی 31، پی بی 46، پی بی 45،پی بی 47،پی بی 48،پی بی 37 وہ حلقے ہیں جہاں سے بلوچستان نیشنل پارٹی کامینڈیٹ چرایاگیا اور ہمارے جیتے ہوئے امیدواروں کانتیجہ تبدیل کرکے ان کی جیت کو ہار میں تبدیل کردیاگیا پنجگور کی قومی سیٹ کا نتیجہ 72گھنٹے بعد اعلان کیا گیا وہاں امیدوار کو ڈپٹی کمشنر کے دفتر بلا کر مبارکباد دی گئی اور کہاگیاکہ ہار پہنائیں گے لیکن جب نتیجہ آیا تو اس کو چوتھے نمبر پرلے آیا پہلے پوزیشن والے امیدوار کوچوتھی پوزیشن دی گئی جن حلقوں سے ہم جیتے ہیں یا کوئی اور اگر وہاں کسی کو نتائج پر خدشات اور تحفظات ہے تو ان کی چھان بین ہونی چاہیے ،اس کیلئے اعلیٰ سطحی کمیشن بنائی جائیں اور جو بھی ملوث ہو اس کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائیں ،بلوچستان نیشنل پارٹی کو حکومت سازی سے روکنے کیلئے مختلف حربے استعمال کئے گئے ہیں بلکہ صف بندی کی گئی ہے اس سے پہلے بھی ہمارے خلاف صف بندیاں ہوتی رہی ہیں ،نتائج میں تبدیلی ہمیں حکومت سازی سے روکنے کیلئے کی گئی لیکن اس کے باوجود ہم اور اتحادی اس کوشش میں ہے کہ اگر ہوسکے تو ہم اپنی حکومت بنائیں سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے والوں کو اتحادی کہتے اور سمجھتے ہیں یا جن کے ساتھ ہمارے الائنسز تھے باقی بہت سے لوگ بات چیت کیلئے آئے ہمارے دروازے کسی کیلئے بند نہیں ایک سوال کے جواب میں ان کاکہناتھاکہ بلوچستان میں سب کچھ ہوتاہے 1988ء سے وہ صورتحال دیکھ رہے ہیں عین وقت میں بلوچستان میں کچھ بھی تبدیل ہوسکتاہے ،ایک ممبر وزیراعلیٰ بھی بن سکتاہے ہم تو7ہے اور ہمارے ساتھ اور بھی ساتھ ہیں ،بلوچستان میں سیاست کے ساتھ ساتھ قبائلی اور علاقائی روایات بھی ہیں ،کچھ لوگ مبارکباددینے اور کچھ لوگ مبارکباد لینے کیلئے آئے جہاں تک بلوچستان عوامی پارٹی کے صدر جام کمال کا تعلق ہے وہ گزشتہ روز آئے اور ہمیں حکومت میں شمولیت کی دعوت دی ہم اپنی حکومت بنائیں یا چاہیے کسی اور کی دعوت پر جائیں بی این پی کی ترجیحات صوبے کی جملہ مسائل ہے اس میں سرفہرست لاپتہ افراد کا مسئلہ ہے ،12جولائی 2016ء کو جو آل پارٹیزکانفرنس ہوئی تھی اس کے اعلامیہ کے مطابق جس میں تمام شریک جماعتوں کے دستخط ہیں سی پیک کے حوالے سے اب ابھی ہمارا وہی موقف ہے ،بلوچستان کے ساحل وسائل گڈانی سے شروع ہوکر جیونی تک اس پر بلوچستان کے لوگوں کی حق ملکیت تسلیم کی جائیں وسائل چاہیے زیر زمین ہو یا زمین کے اوپر تمام کے تمام پر بلوچستان کے لوگوں کی حق ملکیت تسلیم کی جائے اس سلسلے میں ہم ہر کسی سے بات کرنے کیلئے تیار ہیں ،انہوں نے کہاکہ سینٹ چیئرمین گزشتہ روز جام کمال عالیانی کے ساتھ آئے تھے اگر سینٹ بااختیار ہوتا تو بلوچستان کی یہ حالت نہ ہوتی ،انہوں نے کہاکہ اسے اسلام آباد جانے کیلئے دعوت دی گئی ہے ،انہوں نے کہاکہ اسے پاکستان پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ اور پاکستان تحریک انصاف کے جہانگیر ترین نے مدعو کیاہے ہم نے بات چیت کے دروازے بند نہیں کئے بلوچستان کے مسائل پر بات کیلئے کوئی ایک قدم آگے آئے تو ہم 4قدم اس کے پاس جانے کو تیار ہیں ،بلوچستان کے مسائل کے حل کی جو بھی انشورنس دیتے ہیں ان کے ساتھ بات چیت کیلئے تیار ہیں ،مرکزی اور صوبائی سطح پر دیگر جماعتوں کے ساتھ حکومت سازی ودیگر امور سے متعلق 2کمیٹیاں تشکیل دیدی گئی ہے دونوں کمیٹیوں میں ایم پی ایز اور ایم این ایز بھی شامل ہیں اور دونوں کی سربراہی میں خود کررہاہوں ،عوامی نیشنل پارٹی ،ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے ساتھ ہماری بات چیت ہوئی ہے بلکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ بھی ہماری گزشتہ روز بات چیت ہوچکی ہے لوگوں کو جلدی ہے پر ہمیں جلدی نہیں ،ہمارے فیصلے پارٹی کے ادارے کرتے ہیں ہم نے کسی بھی فیصلے سے قبل پارٹی کے اداروں سے رائے لی ہم پارٹی اور اس کے اداروں کے مرہون منت ہے،ادارے اس بات کااختیار رکھتے ہیں کہ وہ اپوزیشن میں بیٹھتے ہیں یا حکومت میں ہمیں حکومت اور اپوزیشن میں بیٹھنے کا کوئی فرق نہیں پڑتا،ہم بلوچستان میں کینسر ہسپتال کا قیام چاہتے ہیں اس کا وعدہ ہم نے عبدالقدوس بزنجو کی حکومت سے بھی لیا تھا ،ٹرن آؤٹ کم نہیں آیا بلکہ رپورٹس میں نے پڑی ہے بلوچستان کے مسترد شدہ ووٹ سب سے زیادہ ہے 5.3فیصد ووٹ مسترد ہیں ،ایک لاکھ سے زائد ووٹ مسترد ہوئے ہیں ،پولنگ عملہ ووٹرز کو یہ بھی نہیں بتاپارہا تھا کہ انہوں نے ووٹوں پر انگوٹھے لگانے ہیں یا مہر یہ اسی سٹاف کاکام ہوتاہے ؟دور دراز علاقوں کے لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا انتخابی عملہ کاؤنٹر فائل پر انگوٹھے کانشان لیتے ہیں اور ووٹر کو مہر نہیں دیتے جس کے باعث ووٹرز پریشان حالی میں ووٹوں پر انگوٹھے لگا بیٹھے یہ عملے کی کوتاہیاں ہیں جس کا ذمہ دار الیکشن کمیشن ہیں ،وزیراعلیٰ کا عہدہ ہمارا حق بنتاہے کوئی دے یا نہ دیں اس کیلئے بھیک نہیں مانگیں گے ۔انہوں نے کہاکہ ہمارا چرایاگیا مینڈیٹ ایک ہی جماعت کو دیاگیاہے اس موقف پر اب بھی ہم قائم ہیں ،بلوچستان عوامی پارٹی میں فارورڈ بلاک سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کاکہناتھاکہ کچھ تو پردہ داری کریں میڈیا کے لوگ ایسے سوال نہ پوچھے اگر نیت صاف ہو توبلوچستان کے تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں اگر ایسا نہ ہو تو پھر ہمیں تاثر ملے گاکہ بلوچستان ان کے ترجیحات میں شامل نہیں ،جو لوگ بلوچستان کے مسائل حل کرنے کا کہتے رہے اور وہ حل نہیں کرتے تو ہم سمجھیں گے کہ وہ ہمارے مسائل پر صرف مگر مچھ کی آنسو بہارہے ہیں ،ہم پر امید ہیں اور اسی لئے آج تک جدوجہد کررہے ہیں اسفندیار ولی سے بھی اسلام آباد میں ملاقات ہوگی ہم اور اتحادی اقلیت میں نہیں بلکہ مقابلہ کرسکتے ہیں اگر بات نہ بن پائی تو مقابلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں ہار اور جیت کافیصلہ تو آنے والے دنوں میں ہوگا ہم نے ریٹرننگ آفیسرز کے پاس نتائج کو چیلنج کیاہے اس کے بعد الیکشن کمیشن اور اس کے بعد ٹربیونل اور عدلیہ میں بھی نتائج کو چیلنج کرینگے ۔ہماری ترجیحات میں لاپتہ افراد ،امن وامان کا قیام اور کرپشن کا خاتمہ ہیں چاہیے ہماری اپنی حکومت بنے یا پھر ہم حکومت کا حصہ نہ ہو ہماری ترجیحات یہی رہیں گے ،اگر ہماری حکومت قائم ہوئی اور ہم نے بھی وہی تاریخ دہرائی تو پھر ہمارا حال بھی ایسا ہوگا جیسا آج کچھ پارٹیوں کا ہے ہمارے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے توحکومت کوچھوڑنے میں بھی دیر نہیں کرینگے ،ہمارے پاس مسائل کے حل کیلئے جادو کی چھڑی نہیں ہے اور یہ دعویٰ بھی نہیں کرتے کہ ایک دن میں مسائل ختم کرینگے ،کرپشن ایک ناسور ہے جو وباء کی طرح ہمارے معاشرے میں پھیلا ہواہے ،کرپشن ہو یا کوئی اور مسئلہ کے خاتمے کیلئے ویل ہوناچاہیے جب تک آپ خودکرپشن سے پاک نہ ہو اس وقت تک آپ کرپشن کا خاتمہ نہیں کرسکتے جو لوگ کرپشن کی بنیاد پر منتخب ہوتے ہیں وہ کرپشن کو کیسے ختم کرپائینگے ۔کمیٹیاں تمام جماعتوں کے ساتھ رابطے کریگی چاہیے آزاد ہو یا کسی سیاسی جماعت کا حصہ ،انہوں نے کہاکہ میں نے ابھی تک قومی یا صوبائی اسمبلی میں رہنے کا فیصلہ نہیں کیاہے اس کا فیصلہ پارٹی کریگی اگر یہاں پوزنش بن رہی ہے تو کچھ ساتھیوں کی رائے ہیں کہ میں یہاں رہوں ،اگر حکومت بنتی ہے تو میں یہاں رہوں اور اگر نہ بھی بنتی ہے تو میں یہاں رہوں،کچھ ساتھی میرے وفاق جانے کے حق میں ہے ،انہوں نے کہاکہ صوبائی کمیٹی میں خود ہوں ،ساجد ترین ،رؤف اور بابر رحیم شامل ہیں ،قومی سطح کی کمیٹی میں خود ،ڈاکٹرجہانزیب جمالدینی ،حاجی لشکری رئیسانی ،آغاحسن ایڈووکیٹ شامل ہیں ،ہمارے نامزد امیدواران اتنے بڑے مارجن سے جیتے کہ انہیں ہرانامشکل تھا اس لئے ہمارے جیتے ہوئے امیدواران کے حلقے کو لے جائیں تو ان کامارجن کم ہونے کی بجائے مزید بڑھے گا،بلوچستان کی تمام حکومتیں آرسی ڈی اور سپر ہائی وے پر بنی ہیں ۔