بلوچستان اسمبلی نے صدر پاکستان کے انتخاب کے لئے 12ستمبر کو پولنگ سٹیشن قرار دینے کی منظوری دے دی

  • August 31, 2018, 10:31 pm
  • National News
  • 175 Views

کوئٹہ (ویب ڈیسک) بلوچستان اسمبلی نے صدر پاکستان کے انتخاب کے لئے منگل4ستمبر2018ء اور سینٹ انتخابات کے لئے 12ستمبر کو پولنگ سٹیشن قرار دینے کی منظوری دے دی ۔ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعہ کو 20منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی سپیکر سردار بابرموسیٰ خیل کی صدارت میں ہوا ۔ اجلاس میں صوبائی وزیر داخلہ سلیم احمد کھوسہ نے بلوچستان اسمبلی کے قواعد وا نضباط کار مجریہ1974ء کے قاعدہ255تحت تحریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ صدر پاکستان کے مجوزہ انتخاب کے لئے پولنگ سٹیشن قرار دینے کی غرض سے بلوچستان اسمبلی کے قواعد وانضباط کار کے قاعدہ231کے تقاضوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے اور بلوچستان اسمبلی کے ایوان کو منگل4ستمبر 2018ء کو صبح دس سے شام چار بجے تک صدر پاکستان کے مجوزہ انتخاب کے لئے پولنگ سٹیشن قرار دیا جائے جس کی ایوان نے متفقہ طور پر منظوری دے دی ۔ صوبائی وزیر داخلہ میر سلیم احمد کھوسہ نے ایک اور تحریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے سینٹ کی خالی جنرل نشست پر ضمنی انتخاب کے ئے بلوچستان صوبائی اسمبلی کے ایوان کو 12ستمبر2018ء کی صبح نو بجے سے شام چار بجے تک پولنگ سٹیشن قرار دینے کی غرض سے بلوچستان اسمبلی کے مجریہ1974ء کے قاعدہ 231سے مستثنیٰ قرار دیا جائے جس کی ایوان نے متفقہ طور پر منظور ی دے دی ۔اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے ثناء بلوچ نے پوائنٹ آف آرڈر پر ڈپٹی سپیکر کی توجہ پی ایس ڈی پی کے حوالے سے بلوچستان ہائیکورٹ کے فیصلے کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ ہائیکورٹ نے بلوچستان کی پی ایس ڈی پی پر جو فیصلہ دیا ہے اس کا اطلاق پورے صوبے پر ہوتا ہے یہ ایک اہم مرحلہ تھا مگر 20اگست سے لے کر اب تک اس پر بلوچستان اسمبلی کا اجلاس طلب نہیں کیا گیا حالانکہ اجلاس بلا کر اس میں اس اہم مسئلے پر بحث ہونی چاہئے تھی انہوں نے ڈپٹی سپیکر سے استدعا کی کہ چار ستمبر سے 12ستمبر کے درمیان اسمبلی کا اجلاس بلا نے کی رولنگ دیں تاکہ اس سیشن میں پی ایس ڈی پی پر اس ایوان میں صوبے بھر کے موجود نمائندے بات کرسکیں اس وقت بلوچستان میں غربت پسماندگی سمیت تعلیم صحت پینے کے صاف پانی کی سہولیات کا فقدان ہے غذائی قلت اہم مسئلہ ہے اس سمیت تمام مسائل پر ارکان بہتر تجاویز دے سکیں گے جس سے ایک بہتر پی ایس ڈی پی بنانے میں مدد ملے گی ۔ ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ آج کا اجلاس صرف بلوچستان اسمبلی کے ایوان کو صدارتی اور سینٹ انتخابات کے لئے پولنگ سٹیشن قرار دینے کے لئے ہے بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے میر اسداللہ بلوچ نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے حوالے سے کابینہ میں غور کے بعد بہتر فیصلہ ہوسکتا ہے لہٰذا اسے یہ کام کرنے دیا جائے انہوں نے کہا کہ پنجگور سے چار روز قبل ایک نوجوان کو اغواء کیا گیا ہے یہ حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ مغوی کی فوری بازیابی کو یقینی بنائیں جس پر ڈپٹی سپیکر نے وزیر داخلہ سلیم احمد کھوسہ کو ہدایت کی کہ وہ اس سلسلے میں حکام کو ہدایت کریں جس پر وزیر داخلہ نے کہا کہ اس مسئلے پر میر اسداللہ بلوچ ان سے ان کے چیمبر میں بات کریں اور معلومات فراہم کریں ہر ممکن اقدام کریں گے۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے میر نصیر شاہوانی نے کہا کہ پی ایس ڈی پی پر ایوان میں بات ہو تو بہتر ہے اگر کابینہ میں کوئی فیصلہ ہوا تو پھر اسے چیلنج کیا جاسکے گا انہوں نے ڈپٹی اسپیکر کی توجہ صوبے کے زمینداروں کو درپیش مسائل کی جانب مبذول کراتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں 80فیصد عوام کا ذریعہ معاش زراعت اورگلہ بانی سے وابستہ ہے مگر طویل عرصے سے ایک سلسلہ چلا آرہا ہے کہ جونہی ہمارے صوبے میں کوئی پھل یا پھر فصل تیار ہوتی ہے تو ایسے میں ہمسایہ ممالک سے وہی چیزیں امپورٹ کی جاتی ہیں جس سے ہمارے زمینداروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے دوسری جانب ہمسایہ ممالک میں جب ان کی فصلیں تیار ہوتی ہیں تو وہ ہماری فصلوں پر اتنا ٹیکس لگا دیتے ہیں کہ ہمارے لئے ایکسپورٹ ممکن نہیں ہوتا اس اہم مسئلے کو دیکھا جائے ۔ صوبائی وزیر خزانہ میر عارف جان محمد حسنی نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے مسئلے پر کابینہ کے اجلاس میں غور ہوا ہے جلد فیصلہ کرکے ارکان کو آگاہ کردیاجائے گا۔ ثناء بلوچ نے کہا کہ ہم صوبے میں ایک نئی روایت قائم کرنا چاہتے ہیں اکثر دیکھا گیا ہے کہ کابینہ کے فیصلوں کو عوام میں پذیرائی نہیں ملتی اگر پی ایس ڈی پی پر عوام کے تمام منتخب نمائندے یہاں پر بحث کریں تجاویز دیں تو زیادہ بہتر ہوگا جس پر ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ اس پر بحث کے لئے طریقہ کار موجود ہے اجلاس بھی ارکان کی ریکوزیشن پر ہی بلایا جاسکتا ہے وزیراعلیٰ میر جام کمال خان نے کہا کہ کابینہ اور ایوان دونوں کا بڑا اہم کردار ہے تاہم اسمبلی سے بڑا کوئی ادارہ نہیں اس ایوان میں حکومت اور حکومتی ادارے ارکان کو ہر محکمے کے حوالے سے جوابدہ ہیں مگر اس کا بھی ایک طریقہ کار ہے ارکان تحریک التواء ، قرار داد، سوالات ، عوامی مفاد کے نکتے پر کوئی بھی مسئلہ اٹھاسکتے ہیں تاہم بہتر طریقہ کار یہ ہے کہ ایوان کی قائمہ کمیٹیاں ہوتی ہیں جن کے نیچے سب کمیٹیاں بھی ہوتی ہیں پی ایس ڈی پی پر بات اور نظرثانی بھی ہوسکتی ہے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ ایوان کے قواعد کے مطابق طریقہ کار اختیار کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ کابینہ کی بھی ذمہ داریاں ہیں ۔ ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ اس سلسلے میں حکومت کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں کہ وہ ہر سہ ماہی کی رپورٹ ایوان میں پیش کرے جبکہ اب تک اتنا وقت نہیں گزرا تین ماہ بعد حکومت ایوان میں رپورٹ پیش کرے گی تو اس پر بات ہوگی ۔جمعیت العلماء اسلام کے سید فضل آغا نے کہا کہ یہ ایک لمبا طریقہ کار ہے اس سے بہتر ہوگا کہ صوبے کا پی ایس ڈی پی بناتے وقت پورے ایوان کو اعتماد میں لیا جائے کیونکہ کابینہ میں ہماری بلکہ صوبے کے اکثریتی حلقوں کی نمائندگی نہیں اس لئے خدشہ ہے کہ اہم منصوبے شامل نہیں ہوں گے حکومت ایوان کو اعتماد میں لے کر پی ایس ڈی پی بنائے اس سے حکومت اور ایوان دونوں کا وقت بچ جائے گا ۔ صوبائی وزیر اطلاعات میر ظہور بلیدی نے کہا کہ کابینہ کے اجلاس میں پی ایس ڈی پی پر طویل غور کیا گیا ہم اسے بہتر بناکر اس میں پورے صوبے کو شامل کریں گے جمعیت العلماء اسلام کے حاجی نواز کاکڑ نے کہا کہ صوبائی کابینہ میں شامل وزراء کو ہمارے حلقوں کے مسائل کا علم نہیں ہوسکتا ان کی بجائے ہر حلقے کا نمائندہ اپنے حلقے کے مسائل اور ترقیاتی منصوبوں کی بہتر انداز میں نشاندہی کرسکتا ہے بہتر ہے کہ پی ایس ڈی پی پر ایوان میں ہی بحث کی جائے ۔بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی ) کے سید احسان شاہ نے کہا کہ پی ایس ڈی پی کے حوالے سے بعض ارکان کے خدشات بلا جواز نہیں کیونکہ گزشتہ پانچ سال کے دوران حکومت کی جانب سے مرضی کے منصوبے پی ایس ڈی پی میں شامل کئے جاتے رہے ہیں اکثر علاقوں کو نظر انداز کیا جاتا رہا جس کی وجہ سے آج ارکان اپنے خدشات کا اظہار کررہے ہیں تاہم بہتر ہوگا کہ ارکان صوبائی کابینہ کو پی ایس ڈی پی سے متعلق اپنی رپورٹ دینے کا موقع دیں اگر اس رپورٹ کے بعد بھی ارکان مطمئن نہ ہوئے تو پھر اس پر بحث بھی کی جاسکتی ہے وزیراعلیٰ میر جام کمال خان نے کہا کہ پی ایس ڈی پی دراصل صوبائی بجٹ کا حصہ ہوتا ہے جب بجٹ منظور کیا جاتا ہے تو پی ایس ڈی پی بھی منظور ہوجاتی ہے یہاں پر تمام ارکان برابر ہیں کابینہ میں سب کی نمائندگی نہیں ہوتی لیکن جب سٹینڈنگ کمیٹیاں بنتی ہیں تو ان میں ایوان میں نمائندگی رکھنے والی تمام جماعتوں کی نمائندگی ہوتی ہے ہر شعبے سے متعلق سٹینڈنگ کمیٹی ہوتی ہے جس میں منصوبوں سمیت تمام امور پر تفصیلی غور و خوض کے بعد انہیں ایوان میں لایا جاتا ہے جس کے بعد اس پر تمام ارکان بحث کرتے ہیں اور اپنی تجاویز بھی دیتے ہیں کابینہ اور ایوان اپنا اپنا کام کرتے ہیں ہم ایوان کو مطمئن کریں گے ارکان اسمبلی جب جس وقت چاہیں کسی بھی مسئلے پر یہاں بات ہوسکتی ہے تاہم انہوں نے زور دیا کہ سٹینڈنگ کمیٹیوں کی جلد تشکیل ہونی چاہئے ۔ اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغرخان اچکزئی نے وفاقی وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کے پشتونوں سے متعلق ریمارکس کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ روز وفاقی وزیر نے یہ کہا ہے کہ دہشت گرد اور پشتون ملتے جلتے ہیں یہ عجیب بات ہے کہ چالیس سال سے پشتونوں کی سرزمین پر آگ لگی ہوئی ہے اس سے متاثر بھی پشتون ہورہے ہیں دہشت گردی کا شکار بھی پشتون ہیں لاشیں بھی ہم اٹھا رہے ہیں اور پھر ایک وفاقی وزیر کی جانب سے اس قسم کی باتیں قابل مذمت ہیں یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بحیثیت پشتون پوری قوم دہشت گردی سے متاثر ہے اس کے باوجود ہمیں ہی دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے تاریخ گواہ ہے کہ پشتون امن پسند اور روایت پسند رہے ہیں پشتونوں کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ان کی سرزمین پر آنے والے دہشت گردوں کا پشتونوں سے کوئی تعلق نہیں بلکہ وہ جس کی میزبانی میں آئے اس سے بھی سب آگاہ ہیں انہوں نے زور دیا کہ پورا ایوان وفاقی وزیر کے اس بیان کی مذمت کرے ۔جس کے بعد ڈپٹی سپیکر نے اجلاس صدارتی انتخابات کے لئے 4ستمبر کی صبح دس بجے تک ملتوی کردیا ۔