محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی قائمہ کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے ،وزیراعلیٰ جام کمال

  • August 31, 2018, 10:31 pm
  • National News
  • 108 Views

کوئٹہ (ویب ڈیسک)وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ اسمبلیوں میں قائمہ کمیٹیوں کا بہت اہم رول ہوتا ہے اور قائمہ کمیٹیوں میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی نمائندگی موجود ہوتی ہے اس لئے میر ا مشورہ ہے کہ پی ایس ڈی پی کے متعلق بلوچستان ہائی کورٹ کے دیئے گئے فیصلے پر محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی قائمہ کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے تاکہ قائمہ کمیٹی اس بابت اپنی سفارشات سے ایوان کو آگاہ کریں اور قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کے بعد اراکین اسمبلی اس معاملے پر تفصیلی بحث کریں یہ بات انہوں نے جمعہ کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں مختلف اراکین اسمبلی کی جانب سے پی ایس ڈی پی کی سکیمات کے متعلق ہائیکورٹ کے دیئے گئے فیصلے پراظہار خیا ل کرتے ہوئے کہی وزیراعلیٰ جام کمال خان نے کہا ہے کہ پی ایس ڈی پی بجٹ کا حصہ ہوتا ہے جوکہ بجٹ کے ساتھ لنک ہوتا ہے میرامشورہ ہے کہ محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی قائمہ کمیٹی تشکیل دی جائے جو اپنے پہلے اجلاس میں پی ایس ڈی پی کے متعلق تمام معاملات کا جائزہ لیکر رپورٹ ایوان میں پیش کرے پھر اس رپورٹ پر تمام ممبران صوبائی اسمبلی بحث کرسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ پی ایس ڈی پی میں کوئی بھی سکیم کسی رکن کی خواہش پر شامل نہیں ہوسکتی بلکہ پالیسی کے تحت تمام سکیمات شامل کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ کابینہ اس معاملے کو دیکھ رہی ہے جبکہ اسمبلی سے بڑا کوئی فورم نہیں ہوسکتا کیونکہ وزراء اور کابینہ کے ممبران بھی اسمبلی کاہی حصہ ہے اس معاملے پر صوبائی اسمبلی کے ممبران جو بھی تفصیلات چاہتے ہیں متعلقہ محکمہ وہ فراہم کردی گی جبکہ صوبائی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بھی اس معاملے کو دیکھ سکتی ہے اور اگر کوئی بھی ممبر اس حوالے سے اپنے قرار داد توجہ دلاؤ نوٹس یا سوال اسمبلی میں جمع کراتے ہیں تو بھی حکومت اس بارے میں ایوان کومکمل تفصیلات سے آگاہ کریگی کیونکہ صوبائی اسمبلی کو معلومات کی فراہمی کے تمام محکموں کی پابند ہوتے ہیں ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ تعمیراتی منصوبہ بندی میں پائی جانے والی خامیوں کے باعث بہت سے ترقیاتی منصوبے یا تو نامکمل رہ جاتے ہیں یا پھر ان کی افادیت نہیں رہتی جس سے وسائل کا ضیاع ہوتا ہے لہٰذا تما م تعمیراتی محکمے اور ادارے کسی بھی ترقیاتی منصوبے پر عملدرآمد سے قبل جامع منصوبہ بندی کریں اور منصوبے ٹھیکہ دینے کی بنیاد پر نہیں بلکہ عوامی ضروریات اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر بنائے جائیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے کوئٹہ ترقیاتی پیکج میں شامل منصوبوں کی پیشرفت اور روڈ بائی پاس حب منصوبے سے متعلق امور کا جائزہ لینے کے لئے منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ صوبائی وزراء میر طارق مگسی، سردار محمد صالح بھوتانی،سردار سرفراز ڈومکی، میر ظہور بلیدی، چیف سیکریٹری ڈاکٹر اختر نذیر، ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ بندی وترقیات حافظ عبدالباسط، سیکریٹری خزانہ قمر مسعود، سیکریٹری مواصلات علی اکبر بلوچ اور دیگر متعلقہ حکام نے اجلاس میں شرکت کی جبکہ ڈپٹی پروجیکٹ ڈائیریکٹر کوئٹہ پیکج نے اجلاس کو پیکج میں شامل منصوبوں کی پیشرفت سے آگاہ کیا اجلاس کو بتایا گیا کہ 15ارب روپے کے ترقیاتی پیکج میں گیارہ منصوبے شامل ہیں، پیکچ کے لئے پانچ ارب روپے سابق وزیراعظم، پانچ ارب روپے سابق وزیراعلیٰ کی جانب سے اعلان کردہ ہیں جبکہ پانچ ارب روپے صوبائی پی ایس ڈی پی میں مختص کئے گئے ہیں۔علاوہ ازیں دس ارب روپے کی لاگت سے کوئٹہ ایکپریس وے کا منصوبہ بھی تیار کیا گیا ہے جس کے لئے پانچ ارب روپے وفاقی حکومت اور پانچ ارب روپے صوبائی حکومت فراہم کرے گی۔ انہوں نے بتایا کہ پیکج کے پانچ منصوبوں جن میں سریاب روڈ کی توسیع، سریاب کے علاقے میں 120کلومیٹر گلیوں اور سڑکوں کی تعمیر ، جوائنٹ روڈ کی توسیع، سبزل روڈ کی توسیع اور ایئر پورٹ نواں کلی لنک روڈ کی تعمیر شامل ہے پر کام کا آغاز کردیا گیا ہے جبکہ گوالمنڈی چوک کی توسیع، جی پی او چوک پر مجوزہ بائی پاس یا فلائی اوور کی تعمیر ، جوائنٹ روڈ کی توسیع کے فیز ٹو ، شہر کے مختلف علاقوں میں نکاسی آب اور ریلوے اسٹیشن پر فوڈ سٹریٹ کے قیام کے منصوبوں پر کام کا آغاز کیا جانا ہے۔ اجلاس میں تمام منصوبوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور ان میں پائے جانے والے بعض نقائص اور خامیوں کو دور کرنے کے لئے دوبارہ سے سروے کرنے کی ہدایت کی گئی، وزیراعلیٰ نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ منصوبوں کے لئے مناسب سروے نہ کئے جانے کے باعث بہت سی خامیاں رہ جاتی ہیں اور ان کی افادیت متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ کوئٹہ ترقیاتی پیکج میں شامل سڑکوں کی توسیع کے ان منصوبوں پر جن پر تاحال عملدرآمد کا آغاز نہیں ہوا ہے کے لئے متبادل تجاویز کا جائزہ بھی لیا جائے ۔ وزیراعلیٰ نے سریاب روڈ کو دو مقامات سے مشرقی اور مغربی بائی پاس سے منسلک کرنے کے لئے لنک روڈ تعمیر کرنے کی ہدایت بھی کی تاکہ سریاب روڈ پر ٹریفک کے دباؤ میں کمی لائی جاسکے۔ وزیراعلیٰ نے کوئٹہ ایکسپریس وے منصوبے کا از سرنو جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی جبکہ انہوں نے سڑکوں کی تعمیر سے پہلے ان علاقوں میں نکاسی آب ، پانی اور گیس پائپ لائن کی تنصیب کی ہدایت کی تاکہ بعد میں سڑکوں کو توڑنا نہ پڑے۔ اجلاس کو روڈ حب بائی پاس منصوبے سے متعلق امور پر بھی بریفنگ دی گئی، محکمہ مواصلات کے حکام نے آگاہ کیا کہ تقریباً گیارہ کلومیٹر طویل بائی پاس کی تعمیر پر لاگت کا تخمینہ 741ملین روپے ہے جس پر پچاس فیصد کام مکمل ہوچکا ہے۔ وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ یہ بائی پاس سی پیک روٹ کے لئے بھی استعمال ہوگا لہٰذا س حوالے سے نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے رابطہ رکھا جائے جبکہ سندھ کی حدود میں آنے والے بائی پاس کے حصے کی این او سی کے حصول کے لئے حکومتی سطح پر سندھ حکومت سے رابطہ کیا جائے۔