بلوچستان کی اہم ضرورت انسانی وسائل کی ترقی ہے ،وزیراعلیٰ

  • October 23, 2018, 11:18 pm
  • National News
  • 370 Views

کوئٹہ (خ ن )وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ اس وقت بلوچستان کی اہم ضرورت انسانی وسائل کی ترقی ہے ہم جتنی سرمایہ کاری اس شعبہ پر کریں گے اتنا ہی بلوچستان اور یہاں کے لوگوں کو فائدہ ہوگا، انسانی وسائل کی ترقی میں یورپی یونین، جی آئی زیڈ اور دیگر اداروں کی معاونت کا خیرمقدم کیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے یورپی یونین کے نمائندے مسٹر ملکو وین گول (Mr.Milko Van Gool) اور جی آئی زیڈ کے پروگرام ڈپٹی کوآرڈینیٹر راجہ سعد خان سے ملاقات کے دوران بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ صوبائی وزیر نورمحمد دمڑ اور چیف سیکریٹری بلوچستان ڈاکٹر اختر نذیر بھی اس موقع پر موجود تھے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کی معاشی و سماجی ترقی کے لئے انہیں ٹیکنیکل ٹریننگ کی فراہمی کے ذریعہ ہنر مند افرادی قوت کے طور پر آگے لانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت محکمہ تعلیم، محکمہ صنعت اور محکمہ محنت و افرادی قوت کے زیراہتمام پولی ٹیکنک انسٹیوٹس اور فنی تربیتی ادارے کام کررہے ہیں تاہم ان کو زیادہ فعال اور مفید بنانے کے لئے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال میں بہتری آئی ہے جس سے صنعت کاری اور تجارتی سرگرمیوں کے لئے سازگار ماحول پیدا ہوا ہے جو روزگار کی فراہمی کے بڑے ذرائع ہیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ماضی میں جرمنی کے معاونتی پروگرام کے ذریعہ صوبے کے مختلف علاقوں میں ٹیکنیکل ٹریننگ کے ادارے قائم ہوئے جہاں سے کثیر تعداد میں نوجوان ہنرمند بن کر نکلے، اسی طرز پر مزید تربیتی اداروں کے قیام کی اشد ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت بی ٹیوٹا کو بھی فعال کرے گی اور سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت فنی تربیتی شعبہ کی ترقی اور ترویج کی جائے گی۔ ملاقات کے دوران یورپین یونین اور جی آئی زیڈ کے تحت صوبے میں فنی تربیت کے فروغ کے لئے معاونت کی فراہمی سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا اور دونوں اداروں کے حکام نے صوبائی حکومت کو بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے محکمہ ماہی گیری کو صوبے کے غریب ماہی گیروں کے لئے گرین بوٹ انجن اسکیم متعارف کرانے اور چھوٹے پیمانوں پر قرضوں کی فراہمی کے پروگرام کے آغاز کے لئے سفارشات تیار کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماہی گیروں کو ضروری سہولیات کی فراہمی اور شعبہ ماہی گیری کو جدید خطوط پر استوار کرکے نہ صرف ماہی گیروں کی معاشی حالت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے بلکہ صوبے کی معیشت کو بھی تقویت دی جاسکتی ہے۔ ان خیالات کااظہار انہوں نے محکمہ ماہی گیری کے امور سے متعلق جائزہ اجلاس کے دوران کیا۔ ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ بندی وترقیات ، سیکریٹری ایس اینڈ جی اے ڈی اور سیکریٹری خزانہ بھی اجلاس میں شریک تھے جبکہ سیکریٹری محکمہ ماہی گیری نے وزیراعلیٰ کو محکمانہ امور ، ترقیاتی منصوبوں کی پیشرفت اور ماہی گیروں کی فلاح وبہبود کے اقدامات کے حوالے سے بریفنگ دی، وزیراعلیٰ نے بلوچستان کے ماہی گیروں کے لئے گوادرمیں تربیتی ورکشاپ کے انعقاد کے ساتھ ساتھ غیرقانونی ٹرالنگ کی روک تھام اور محکمہ ماہی گیری کے ذرائع آمدن میں اضافے کے لئے ضروری قانون سازی اور اقدامات کرنے کے لئے ایڈیشنل چیف سیکریٹری منصوبہ بندی وترقیات کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت کی جس میں سیکریٹری قانون، سیکریٹری خزانہ اور سیکریٹری ماہی گیری شامل ہوں گے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ غیرقانونی ٹرالنگ سے نہ صرف مقامی ماہی گیروں کو معاشی نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ صوبے کو بھی آمدنی نہیں ہورہی، وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگرہم ماہی گیری، زراعت، لائیواسٹاک اور دیگر شعبوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کردیں تو روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے اور حکومت کو نوکریاں دینے کی ضرورت نہیں پڑے گی، انہوں نے کہا کہ آئندہ چند برسوں میں تنخواہوں اور پنشن کی مد میں اخراجات اتنے بڑھ جائیں گے کہ ترقیاتی منصوبوں کے لئے بھی فنڈز دستیاب نہیں ہوں گے۔ ماضی میں غیر ترقیاتی اخراجات کو توغیر ضروری حد تک بڑھایا گیا لیکن ان محکموں کی استعداد کارمیں اضافہ کی جانب توجہ نہیں دی گئی جو ریونیو حاصل کرسکتے ہیں، وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہمارا معاشرہ تبدیلی کے عمل سے گزررہا ہے اور آئندہ برسوں میں یہ ایک مختلف معاشرہ ہوگا، اب لوگ اچھے کام کو سراہتے ہیں اور برے کام پر تنقید کرتے ہیں کیونکہ موجود د دور میں کسی بات کو مخفی رکھنا ممکن نہیں رہا، وزیراعلیٰ نے کہاکہ ہمیں ہر صورت نظام میں بہتری لانا ہوگی، اسی میں ہم سب کی بقاء ہے، انہوں نے کہا کہ اب بھی وقت ہے کہ ہم اہل اور باصلاحیت افسروں سے کام لے کر صورتحال کو بہتر بنائیں، ہمارے پاس باصلاحیت افسروں کی کمی نہیں صرف انہیں آگے لانے اور ان کی اعتماد سازی کی ضرورت ہے، سیاسی قیادت ایسے افسروں کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کرے گی، انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں استعداد کار کی کمی اور نااہلی کا تاثر درست نہیں اور ہم نے بیوروکریسی کے ساتھ مل کر اس تاثر کو دور کرنا ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ افسران اپنی صلاحیتوں کو صحیح طریقے سے بروئے کار لاتے ہوئے کنسلٹنٹس پر انحصار کم سے کم کریں اور یقین رکھیں کہ وہ خود بہتر سے بہتر کام کرسکتے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ بلوچستان کی سمندری پیداوار کا مکمل ڈیٹا تیار کیا جائے محکمہ فشریز کے قوانین میں ضروری ترامیم کرکے ماہی گیروں کے روزگار کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ ماہی گیروں کو مچھلی محفوظ کرنے اور پیکنگ کے لئے بین الاقوامی معیار کی سہولتوں کی فراہمی کے منصوبے بنائے جائیں ، وزیراعلیٰ نے بلوچستان کوسٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کی فوری تعیناتی اور ادارے کی بھرپور فعالی کی ہدایت بھی کی۔ وزیراعلیٰ نے فشنگ بوٹس کی رجسٹریشن اورغیرقانونی ٹرالروں پر جرمانہ عائد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کی ہدایت بھی کی۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا ہے کہ بلوچستان کو پانی کی کمی کا سنگین مسئلہ درپیش ہے تاہم ابھی تک ہمیں صحیح معنوں میں اس صورتحال کا ادراک نہیں جو مستقبل میں ایک بڑے بحران کی صورت میں سامنے آسکتی ہے، صوبائی کابینہ نے پانی کے بحران کے پیش نظر صوبے میں واٹر ایمرجنسی لگائی ہے تاکہ دستیاب پانی کے صحیح مصرف کو یقینی بنانے اور پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کی منصوبہ بندی کی جاسکے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے یورپین یونین کے زیراہتمام پانی کے ذرائع کی بہتری کے حوالے سے منعقدہ مشاورتی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس میں آبی ماہرین نے پانی کے بہتر استعمال اور پانی کے ذخائر میں اضافے کے حوالے سے سفارشات پیش کیں، صوبائی وزیر پی ایچ ای نورمحمد دمڑ، چیف سیکریٹری بلوچستان ڈاکٹر اختر نذیر ودیگر حکام، مختلف بین الاقوامی اداروں اور غیرسرکاری تنظیموں کے نمائندے بھی ورکشاپ میں شریک تھے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ پانی کے دستیاب ذخائر کا بہتر استعمال پاکستان اور بلوچستان کا اہم مسئلہ ہے روزمرہ کی ضروریات، زراعت اور صنعتوں کے لئے پانی کے استعمال میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ بلوچستان کا معاشی مستقبل بھی پانی سے وابستہ ہے کیونکہ یہاں 70فیصد سے زائد آبادی کا روزگار زراعت اور لائیواسٹاک کے شعبوں سے منسلک ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ بحیثیت پاکستانی اور بلوچستانی لوگ اس مسئلے کو کیسے دیکھتے ہیں، اگر لوگوں میں پانی کے صحیح استعمال کا شعور اجاگر ہوگا تو بڑی حد تک پانی کے ضیاع کو روکا جاسکتا ہے اس کے ساتھ ساتھ زراعت کے شعبہ میں پانی کے کم استعمال کے لئے جدید ٹیکنالوجی اور کم پانی کی فصلوں کو متعارف کرانے کی بھی ضرورت ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان وسیع وعریض لیکن پسماندہ صوبہ ہے جہاں بارشیں کم اور موسم خشک رہتا ہے، ہماری چراگاہیں ختم ہورہی ہیں، قدیم کاریز کا نظام بھی متروک ہوچکا ہے اور مالدار نقل مکانی پر مجبور ہورہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس دیگر قدرتی وسائل تو موجود ہیں لیکن پانی کا ذریعہ دستیاب نہیں، ہم کوئٹہ میں جتنی بھی ترقی کرلیں لیکن اگر پانی نہیں ہوگا تو لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوں جائیں گے۔ ہمارے پاس وسائل اور اختیار موجود ہیں صرف ترجیحات کے تعین اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جس کے ذریعہ وسائل کو بہتر طریقے سے بروئے کار لایا جاسکے خاص طور سے زیر زمین پانی کی سطح کو بلند کرنے کے لئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، ہمیں امید ہے کہ بین الاقوامی ادارے اس شعبہ میں ہماری معاونت اور رہنمائی کریں گے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ وسائل کا بہتر استعمال کسی بھی حکومت کی کامیابی کا زینہ ہوتا ہے اگر گذشتہ برسوں میں اس جانب توجہ دی جاتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی، صوبے میں ڈیمز اور چیک ڈیمز بنے لیکن ان کی افادیت ایک سوالیہ نشان ہے، گوادرمیں چھ ڈیسیلینشن پلانٹ لگائے گئے جو تاحال غیر فعال ہیں، گوادر کو میرانی ڈیم اور دیگر ذرائع سے ٹینکروں کے ذریعہ پانی کی فراہمی پر ساڑھے تین ارب روپے سالانہ اخراجات ہورہے ہیں اور صوبے میں لاتعداد ایسے منصوبے ہیں جو نامکمل چھوڑدیئے گئے اومانی گرانٹ سے پسنی میں غیر آباد مقام پر ہسپتال قائم کیا گیا انہوں نے کہا کہ اختیارات اور وسائل کا غلط استعمال ہوگا تو نتیجہ بھی غلط نکلے گا۔ ہم سیاسی حکومت کے طور پر صوبے کی ترقی کے لئے ٹھوس بنیادوں پر منصوبہ بندی کررہے ہیں جو منصوبے پی ایس ڈی پی کے کتاب میں ہوں گے وہ معیار کے مطابق زمین پر بھی نظر آئیں گے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت پانی کے مسئلے کو بھی حل کرے گی تاہم تمام اسٹیک ہولڈرز اور معاشرے کے تمام افراد کو بھی صورتحال کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے پانی کے بہتر استعمال کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ پانی کا ایک ایک قطرہ ہمارے لئے قیمتی ہے جو انسانی حیات کی بقاء کی بنیاد ہے، وزیراعلیٰ نے کہا کہ واٹر ٹاسک فورس میں آبی ماہرین او رغیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے گا کیونکہ اس میں مشاورت کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔ انہوں نے ورکشاپ کے انعقاد پر یورپین یونین کا شکریہ اداکرتے ہوئے کہا کہ ورکشاپ میں تیار کی گئی سفارشات پر عملدرآمد کیا جائے گا۔ ورکشاپ سے صوبائی وزیر پی ایچ ای نورمحمد دمڑ نے بھی خطاب کیا جبکہ یورپین یونین کے نمائندے اور آبی ماہرین نے ورکشاپ کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالی۔