دنیا میں چوتھی عالمی جنگ کا آغاز ہوگیا،مولانا شیرانی

  • November 4, 2018, 11:09 pm
  • National News
  • 46 Views

کوئٹہ (پ ر) جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی رہنما سابق رکن قومی اسمبلی وسابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد خان شیرانی نے کہا ہے کہ مولانا سمیع الحق کے بعد دیگر علماء بھی نشانہ بنیں گے، دنیا میں چوتھی عالمی جنگ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام سے شروع ہوچکی ہے ، پوری دنیا پر جنگ مسلط کرنا امریکہ کے وجود اور بقا کی ضرورت ہے ، امریکہ پوری دنیا کو فتح کرنا چاہتا ہے ، دنیا میں کوئی بھی ملک اگر خود مختیار ہونے کی کوشش کرے گا تو امریکہ اس کو اپنا دشمن تصور کرتا ہے،یہ جنگ امریکی مفادات کی جنگ ہے اگرعلماء کرام کے فتوے جنگ کو تازہ کریں تو سمجھ لیں کہ علماء کرام امریکہ کی خدمت کررہے ہیں چاہئے پھر ان کوکرایہ ملے یا نہ ملے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیکب آباد میں جمعیت علمائے اسلام کے ضلع امیر ڈاکٹر اے جی انصاری سے ان کی رہائشگاہ پر والدہ کی وفات پر تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، اس موقع پرحافظ سلیم، حاجی محمد صادق، حاجی امین اللہ، ڈاکٹر حفیظ الرحمن، ڈاکٹر عزیز اللہ،مولانا عبدالجبار رند، حماد اللہ انصاری، حافظ محمد رمضان سومرو، حاجی عباس بلوچ، تاج محمود امروٹی،مولانا تاج محمد چنہ مولانا محمد عالم، قاری شاہ محمد، جمال الدین، سعد الدین، سید اختر شاہ اور دیگر بھی ان کے ہمراہ تھے۔ مولانا محمد خان شیرانی نے مزید کہا کہ بین الاقوامی سطح پر سیاست بدل چکی ہے اب سیاست نظریات، مقاصد اور دلائل کے بجائے مفادات، تجارت اور سوداگری بن چکی ہے،دنیا ایک گلوبل ویلیج ہے جس کے پانچ حاکم ہیں امریکا، برطانیہ، فرانس، چین اور روس وہ دنیا میں فتنہ و فساد چاہتے ہیں تاکہ اس پر حکومت کر سکیں، پاکستان میں عدم رواداری اور فساد کی وجہ بھی ان طاقتوں کی پالیسی ہے، جب پوری دنیا کے مالک اور حاکم پانچ ہیں تو وہ آپ کو لڑائیں یا بنائیں گے،انہوں نے کہا کہ نائن الیون کا جب حادثہ ہوا تو سب سے پہلا ردعمل جو امریکی صدر کا تھا وہ یہی تھا کہ تہذیبوں کی جنگ شروع ہو چکی ہے، لیکن بعد میں جب ان کو اس عنوان کی خرابی کا اندازہ ہوا تو انہوں نے سوچا کہ اگر ہم اس کو تہذیبوں کی جنگ کا نام دیں گے تو یہ نہ ہو کہ مسلمان اسلامی تہذیب کو بچانے کے لیے اکٹھے ہو جائیں اور اگر وہ اکٹھے ہو گئے تو پھر پراکسی وار تو نہیں ہو گی پھر تو ہمیں براہ راست میدان جنگ میں جانا ہو گا،اس لیے انہوں نے اس کو دوسرا عنوان دیا وہ یہ تھا کہ یہ دہشت گردی کے ساتھ جنگ ہے اس کو انہوں نے قبول اس لیے کیا کہ جو مسلمان نوجوان ہے اس میں مذہب کاجذبہ ہے تو جہاد کے نام سے ہمارے ہاتھوں چڑھ جائے گا اور اگر اس میں قومیت کا جذبہ ہے تو پھر آزادی کے نام سے ہمارے ہاتھ چڑھ جائے گا تو ہم دہشت گردی ابھاریں گے بھی خود ااور دبائیں بھی خود اور جو ابھارنے والی قوت ہے وہ بھی مسلمان ہوں گے اور جو دبانے والی قوت ہے وہ بھی مسلمان ہو گی، مقصد یہ تھا کہ دنیا کو یہ دکھا دیا جائے کہ اسلام ایک وحشی مذہب ہے اور مسلمان وحشی درندے ہیں اب ان کی سیاست، مذہب اور حکومت کے میدان میں کوئی جگہ نہیں ہے اور نہ ہونی چاہیے، لہٰذا اسلام اپنی ذات کی حد تک محدود کرے لیکن حکومت اور سیاست میں نہ ہو، وہ اس مقصد میں اب تقریباً کامیاب ہو چکے ہیں۔