جام خاندان کی ایک تاریخ ہے ان کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ،عبدالکریم نوشیروانی

  • December 22, 2018, 12:50 am
  • National News
  • 124 Views

کوئٹہ(پ ر)بلوچستان عوامی پارٹی کے سینئر نائب صدر اور سابق صوبائی وزیر میر عبدالکریم نوشیروانی نے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعلیٰ جام کمال پر رکن اسمبلی ثناء بلوچ کی تنقید پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ جام خاندان کی ایک تاریخ ہے اورقیام پاکستان کیلئے ان کے خاندان کی قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ثناء بلوچ پہلے اپنے ماضی کی تاریخ پر نظردوڑائیں اس کے بعد وہ جام کمال پر تنقید کریں انہیں توپارلیمانی آداب سے بھی واقفیت نہیں ہے انہوں نے جو جام کمال کے خلاف غیر پارلیمانی زبان استعمال کی ہے وہ انہیں زیب نہیں دیتا،یہ بات انہوں نے یہاں جاری کئے گئے اپنے بیان میں کہی،سابق صوبائی وزیر میر عبدالکریم نوشیروانی نے کہاکہ قیام پاکستان کے وقت بلوچستان چاراسٹیٹ پر مشتمل تھاجبکہ کوئٹہ برٹش بلوچستان کہلاتاتھایہ چار اسٹیٹ بیلہ، قلات،، خاران اور مکران اسٹیٹ پر مشتمل تھے اور قیام پاکستان کے وقت سب سے پہلے بیلہ اورخاران اسٹیٹ نے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کیاتھاثناء بلوچ صاحب کو یہ تاریخ مد نظر رکھنی چاہیے اوراپنے ماضی پر بھی نظر دوڑانی چاہیے کہ انہوں نے کونسا تیر مارا ہے ان کا تعلق خاران سے تو نہیں ہے مستونگ سے ہے اسکے باوجود خاران کے عوام نے ان پر پہلے بھی مہربانی کی تھی اور آج بھی کی ہے،پہلے وہ اپنی تاریخ واضح کریں پھر وہ جام کمال پر تنقید کریں انہوں نے کہاکہ ثناء بلوچ صاحب نے جام کمال پر تنقید کے دوران انگوٹھا چھاپ کی بھی مثال دی تومیں ان کویہ واضح کرتاہوں کہ میں نے سیاست میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے جبکہ ثناء بلوچ نے جھوٹ میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے میں انہیں مناظرے کا چیلنج دیتاہوں اور ان سے مناظرے کیلئے بھی تیار ہوں کیونکہ میں سیاسی ماسٹر ہوں تنقید کرنا توآسان ہے لیکن عملی کام کرنا سب سے زیادہ مشکل ہے،میں اور شعیب نوشیروانی چھ مرتبہ خاران سے کامیاب ہوئے اور خاران کے عوام نے ہم پر اعتماد کیا اور ہمیں خاران سے کامیاب کرایا ہم نے بے لوث خاران اوروہاں کے عوام کی خدمت کی ہے اور میں یہ بھی چیلنج کرتاہوں کہ ہمارے دور میں جتنے ترقیاتی کام ضلع خاران میں ہوئے کسی اور ضلع میں نہیں ہوئے ،ترقی آج بھی گراؤنڈ پر موجود ہے جبکہ ثناء بلوچ صاحب ایم این اے بھی رہے اور سینیٹر بھی وہ بتادیں کہ انہوں نے خاران اور نوشکی واشک کیلئے کیا کچھ کیا ؟کتنے ترقیاتی کام کروائے؟میر عبدالکریم نوشیروانی نے کہاکہ اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران ایم پی اے خاران ثناء بلوچ نے ’’یاروں ‘‘کا ذکر کیامیں ان سے پوچھتاہوں کہ ان یاروں کے ساتھ انکے تعلق دوسروں کے مقابلے میں زیادہ تھے اور ان یاروں کو وہ اپنا بھائی کہتے کہتے تھکتے نہیں تھے یہاں تک کہ انکی شادیوں میں بھی شریک ہوتے تھے،جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ دوسروں سے زیادہ ان یاروں کے قریب وہ خود ہیں لیکن آج وہ ان پر بھی اپنے مفاد کی خاطر تنقید کرنے سے باز نہیں آئے،جن کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کے اپنی بھائی بندی کا اظہار کرتے رہے ہیں انہوں نے کہاکہ ثناء بلوچ کو پارلیمانی آداب بھی ملحوظ خاطر رکھنے چاہیءں انہیں غیر پارلیمانی زبان استعمال نہیں کرنی چاہیے تھی انہیں یہ بات مد نظر رکھنی چاہیے کہ وہ پاکستان اور بلوچستان کی اسمبلی میں کھڑے ہوکر بات کررہے ہیں جس کی ایک اپنی روایت اور پارلیمانی تاریخ ہے آئندہ اگر انہوں نے کسی بھی معزز رکن اسمبلی کے خلاف غیر پارلیمانی زبان استعمال کی تو ہم ان کیخلاف ہتک عزت کا بھی دعویٰ کرسکتے ہیں اور انہیں بتائیں گے کہ پارلیمانی آداب اورپارلیمانی زبان کیا ہوتی ہے، یہ ناروے نہیں بلوچستان ہے۔