بچےسےزیادتی کےملزم کوپناہ دینےپرمفتی کفایت کیخلاف مقدمہ

  • January 29, 2020, 11:56 am
  • National News
  • 145 Views

درج کرلیا گیا ہے۔

درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق مفتی کفایت کے خلاف مرکزی ملزم قاری شمس کی گرفتاری ميں رکاوٹ ڈالنے اور پناہ دینے کا الزام ہے۔ درج مقدمے میں کار سرکار ميں مداخلت کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں، تاہم ابھی تک ان کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق پولیس کو ملزم کی گرفتاری سے دور رکھنے اور سرکاری کام میں غیر ضروری رکاوٹ ڈالنے پر 255/34 دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ ایف آئی آر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گرفتار ملزم قاری شمس الدین نے دوران تفیش انکشاف کیا تھا کہ وہ گرفتاری دینا چاہتا ہے مگر مفتی کفایت اللہ اور اس کے بھائی عبدالمالک نے اسے روکے رکھا۔

کیس کا پس منظر

پولیس کے مطابق گزشتہ سال دسمبر میں مانسہرہ ميں مدرسے کے بچے سے مبينہ زيادتی کا واقعہ پیش آیا تھا۔ جس کے بعد متاثرہ بچے کے والد کی مدعیت میں ملزم کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ درج کی گئی ایف آئی آر کے مطابق مرکزی ملزم قاری شمس کو اس کے بھائی عبدالمالک اور
مفتی کفایت اللہ نے پناہ بھی دی۔

مدرسے کے 10 سالہ متاثرہ طالب علم کو مدرسے کے اندر جنسی زيادتی کا نشانہ بنايا گيا تھا۔ جس کے بعد بچے کا میڈیکل کرایا گیا۔ 3 روز قبل جاری ہونے والی رپورٹ میں بچے سے زيادتی کی تصديق کی گئی۔

اہل خانہ کا دعویٰ


متاثرہ خاندان کے مطابق معاملہ رفع دفع کرنے کيلئے دھمکياں بھی دی جاتی رہی ہیں، انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ جے يو آئی رہنما مفتی کفايت اللہ نے صلح کيلئے دباؤ ڈالا اور بڑی رقم کی پيشکش بھی کی۔ سما سے گفتگو میں متاثرہ بچے کے چچا کا کہنا تھا کہ ہمیں ڈر ہے کہ ان کی طرف سے ہمیں کوئی ضرر نہ پہنچ جائے۔

مفتی کفایت کا ردعمل

مفتی کفایت نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ متاثرہ خاندان کے ساتھ ہیں۔ سما کے پروگرام آواز میں گفتگو کرتے ہوئے مفتی کفایت کا کہنا تھا کہ پہلے دن سے متاثرہ فريق کے ساتھ کھڑا ہوں، صلح ميں دلچسپی نہيں اور نہ ہی کوئی دباؤ ڈالا، ملزم کو کيفر کردار تک پہنچانے ميں بھی اپنا کردار ادا کروں گا۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مدرسے کے مالک سميت ديگر 4 ملزمان پہلے ہی گرفتار ہوچکے ہیں۔

سال2019 میں بچوں سے جنسی زیادتی کے کیسز میں اضافہ

بچوں کے تحفظ کیلئے بنائی گئی سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کے ایک اجلاس میں اس ہولناک بات کا انکشاف کیا گیا کہ سال 2019میں بچوں سے زیادتی کے واقعات تشویشناک حد تک بڑھ گئے، جب کہ بچوں کو تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ نشانہ بننے والوں میں لڑکیوں کی تعداد کم ، لڑکوں کی زیادہ تھی۔ اکثر کیسز میں قریبی عزیز، رشتہ دار، محلے والے اور دکاندار وغیرہ ملوث ہوتے ہیں۔

ڈی آئی جی ہزارہ نے بریفنگ میں بتایا کہ مانسہرہ کیس میں متاثرہ بچے کی حالت ایسی تھی کہ بیان کرنا مشکل ہے، وہ دیکھی نہیں جاسکتی تھی۔ اس موقع پر انہوں نے سماجی ابتری کی بڑی وجوہات بھی بتا دیں۔


انہوں نے بتایا کہ سال 2018 میں ایک ہزار387 کیسز، 2019 میں 4000 شکایات درج ہوئیں۔ صرف پنجاب ميں 2 ہزار 403 کيسز رپورٹ ہوئے۔ کمیٹی اجلاس میں بچوں سے زیادتی کے ملزمان کو سخت سزائیں دینے کی بھی تجویز دی گئی۔

اس موقع پر چیئرپرسن خصوصی کمیٹی برائے تحفظ اطفال روبینہ خالد کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ میڈیا بھی دیکھے کہ جو واقعات ہیں یہ بڑھتے کیوں جا رہے ہیں اور اس کی کیا وجوہات ہیں؟ ایک آگاہی پیدا کرنا ہوگی، اگلی میٹنگ میں ہم جتنے لاز ہیں بچوں سے متعلق اس کو ہم دیکھیں گے۔

زینب الرٹ بل کیا ہے؟

واضح رہے کہ رواں ماہ قومی اسمبلی میں “زینب الرٹ بل” کو متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔ زینب الرٹ بل کو ملکی تاریخ میں انتہائی اہم قراردیا گیا ہے۔ بل کے تحت بچوں کے خلاف جرائم پرعمر قید، کم سے کم 10 سال زیادہ سے زیادہ 14 سال سزا دی جاسکے گی۔ جرائم کی نشان دہی کے لیے 1099 ہیلپ لائن قائم کی جائے گی۔

بل کے مطابق اسلام آباد میں ’چلڈرن پروٹیکشن ایکٹ 2018‘ کے تحت ادارہ قائم کیا جائے گا جبکہ لاپتہ بچوں کی فوری بازیابی کیلئے ’زارا‘ یعنی زینب الرٹ رسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی کا قیام بھی بل کا حصہ ہے۔

بل کے متن میں درج ہے کہ 18 سال سے کم عمر بچوں کے اغوا، قتل، زیادتی، ورغلانے یا گمشدگی کی ہنگامی اطلاع کے لئے زینب الرٹ جوابی ردعمل و بازیابی ایجنسی قائم کی جائے گی۔ بل میں درج ہے کہ جو افسر 2 گھنٹے کے اندر بچے کے خلاف جرائم پر ردعمل نہیں دے گا اسے بھی سزا دی جاسکے گی۔ ہیلپ لائن پر بچے کی فوری اطلاع دی جائے گی۔

زیب الرٹ بل کے تحت بچوں سے متعلق معلومات کے لیے پی ٹی اے، سوشل میڈیا اور دیگر اداروں کے تعاون سے ہیلپ لائن اور ایس ایم ایس سروس بھی شروع کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ڈائریکٹر جنرل قومی کمیشن برائے حقوق طفل متعلقہ ڈویژن کی مشاورت سے سپرنٹنڈنٹ پولیس کی سربراہی میں خصوصی ٹیمیں بھی تشکیل دے گا۔


سر عام پھانسی

بل پیش کرنے کے موقع پر تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی فہیم خان نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ بچوں سے زیادتی کے مجرمان کو سرعام چوک میں پھانسی پر لٹکایا جائے۔

واضح رہے کہ قائمہ کمیٹی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے 9 اکتوبر 2019 کو ’زینب الرٹ بل‘ کی منظوری دے دی تھی۔