کرنسی نوٹوں سے کورونا کا پھیلاؤ، حکومت کا اقدامات سے گریز

  • March 16, 2020, 2:34 pm
  • Health News
  • 346 Views

کراچی: زیر گردش کرنسی نوٹ مضر صحت بیکٹیریا اور جراثیم پھیلانے کا سبب بنتے ہیں، عالمی ادارہ صحت نے کورونا کی عالمی وبا کے پیش نظر کرنسی نوٹوں کے بجائے بلاواسطہ ادائیگیوں کا طریقہ اختیار کرنے کی سفارش کی ہے اور کرنسی نوٹ استعمال کرنے کے بعد ہاتھ دھونے پر زور دیا ہے جبکہ طبی ماہرین کی جانب سے عوام کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ کرنسی نوٹوں کے بجائے ڈیجیٹل لین دین کا طریقہ اختیار کیا جائے۔

کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک میں استعمال شدہ کرنسی نوٹوں کو جراثیم سے پاک کرنے کے لیے خصوصی انتظامات کیے جارہے ہیں، تاہم پاکستان میں تاحال ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، پاکستان میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کی سہولت عام ہونے کے باوجود کرنسی نوٹوں کے استعمال میں کمی نہیں آئی، عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ کرنسی نوٹ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن سکتے ہیں ماہرین کے مطابق کورنا وائرس مختلف اقسام کی سطحوں پر 10سے 20گھنٹے تک زندہ رہتے ہیں پاکستان میں نقد لین دین عام ہے اور ایک کرنسی نوٹ ایک ہی دن میں درجنوں ہاتھوں سے گزرتا ہے اور کورونا سے متاثرہ فرد کے زیر استعمال رہنے والے نوٹ ملک بھر میں خطرہ بن کر پھیل چکے ہیں چین اور جنوبی کوریا نے استعمال شدہ کرنسی نوٹوں کو علیحدہ کرکے وائرس سے پاک کرنے کے لیے ادویات کا اسپرے کرنا معمول بنالیا ہے۔

ان ممالک میں استعمال شدہ کرنسی نوٹوں کو بھی الٹرا وائلٹ شعاعوں سے گزارنے کے بعد بلند درجہ حرارت پر رکھا جاتا ہے تاکہ جراثیم سے پاک کیا جاسکے اس کے بعد کرنسی نوٹوں کو بھی انسانوں کی طرح 14روز تک آئسولیشن میں رکھا جاتا ہے تاکہ کرنسی نوٹوں سے عوام کی صحت کو لاحق خطرات کا تدارک کیا جاسکے، بینک آف انگلینڈ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ کرنسی نوٹ جراثیم کے پھیلاؤ کا ذریعہ ہیں اور جلد ہی بینک آف انگلینڈ نے بھی کرنسی نوٹوں کو آلودگی سے پاک کرنے کے لیے جنوبی کوریا اور چین جیسے اقدامات اٹھانے کا عندیہ دیا ہے، بینکوں میں کیش کاؤنٹر پر کام کرنے والا عملہ جراثیم سے آلودہ کرنسی نوٹوں کا آسان ہدف بن سکتا ہے۔ بینکاری ماہرین کے مطابق پاکستانی بینکوں کی شاخوں میں نوٹ گننے کے لیے مشینیں نصب کردی گئی ہیں تاہم گاہکوں سے ملنے والے نوٹ یا صارفین کو کی جانے والی ادائیگیوں کو عموماً کیشیئر ہاتھوں سے ہی گنتے ہیں، نوٹ میں لگے جراثیم بینک کے عملے کے لیے بڑا خطرہ ہیں کیونکہ وہ سارا دن نوٹوں کی گنتی کرنے اور انھیں جمع کرکے درازوں میں رکھنے یا اسٹیٹ بینک سے آئے ہوئے نوٹوں کو نکال کر صارفین کو ادائیگیاں کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
یوٹیلیٹی بلز وصول کرنے والے بینک کے ملازمین بھی کرونا وائرس اور دیگر جراثیم کا آسان ہدف ہیں، ماہرین کے مطابق بینکوں کے اے ٹی ایم، بوتھ، داخلی دروازے کے ہینڈل اور پوائنٹ آف سیل مشینیں بھی جراثیم سے آلودہ ہوسکتی ہیں بینکاری ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں نقد رقوم کے لین دین کا رجحان زیادہ ہونے کی وجہ سے کرنسی نوٹوں کو آئیسولیشن میں رکھنا ممکن نہیں ورنہ کاروباری سرگرمیاں جمود کا شکار ہوسکتی ہیں البتہ چھوٹی مالیت کی رقوم کے لین دین اور روزمرہ معمولات کے لیے ڈیجیٹل ادائیگیوں کا طریقہ انتہائی محفوظ ہے پاکستان میں تمام موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے بینکوں کے اشتراک سے موبائل بینکنگ کی سہولت فراہم کی جارہی ہے جن کی مدد سے ایسے تمام صارفین جن کے بینک اکاؤنٹس نہ بھی ہوں استفادہ کرسکتے ہیں۔

اسی طرح بیشتر کمرشل بینکوں نے بھی اپنی ڈیجیٹل ایپلی کیشنز متعارف کرادی ہیں جن کے ذریعے بینک کسٹمر یوٹلیٹی بلز کی ادائیگی، گراسریز کی خریداری، ٹرانسپورٹ، ریل اور بسوں کے ٹکٹ باآسانی خرید سکتے ہیں، ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کی وبا نے ڈیجیٹل لین دین کے فروغ کے لیے سازگار ماحول مہیا کردیا ہے۔