پاکستان میں کورونا کی تشخیص، علاج اور ویکیسن کی تیاری میں اہم پیش رفت

  • April 1, 2020, 9:20 pm
  • COVID-19
  • 256 Views

کراچی: ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی کی سربراہی میں کام کرنے والی ریسرچ ٹیم نے نوول کورونا وائرس2019 میں مقامی طور پر ہونے والی تبدیلیوں کا پتہ لگالیا ہے۔

ماہرین کا کہناہے وائرس میں مقامی حالات کے باعث جینیاتی تبدیلیاں ہوئی ہیں اور یہ عمل ابھی جاری ہے، جینیاتی تبدیلیوں کا سلسلہ ترتیب معلوم ہونے سے کورونا کی تشخیص ،علاج اور ویکیسن کی تیاری میں مدد ملے گی۔

اس لحاظ سے مقامی طور پر پھیلنے والے وائرس کے جینوم سیکیوینس کا پتہ لگانا ایک اہم پیش رفت سمجھی جارہی ہے تاہم ریسرچ کا عمل ابھی جاری ہے اس کی تکمیل میں کچھ وقت درکار ہے۔

ڈاؤ یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کے جینوم سیکیوینس کا سلسلہ ترتیب معلوم کرنے کے لیے مقامی طور پر کورونا سے متاثر ہونے والے پندرہ سالہ لڑکے سے وائرس لےکر اس کا تجزیہ کیا گیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ وائرس کا سلسلہ ترتیب معلوم کرنا انتہائی اہم پیش رفت ہے جس سے ویکسین بنانے اور علاج میں بڑی مدد ملے گی تاہم یہ ریسرچ کا ابتدائی مگر بہت اہم مرحلہ ہے ابھی تحقیق کے کئی مراحل باقی ہیں۔

واضح رہے کہ ڈاؤ یونیورسٹی لیب ملک کی اولین لیب ہے جہاں کرونا وائرس کےلیے پی سی آر ٹیسٹ متعارف کرایا گیا، ڈاؤ یونیورسٹی کی جدید آلات سے آراستہ بی ایس ایل تھری وائرولوجی لیب کو استعمال کرتے ہوئے وائرس کے نمونے اس کا آر این اے علیحدہ کیا گیا اور پی سی آر کے ذریعے وائرس کی موجودگی کا پتہ چلایا گیا۔

یہ وائرس مقامی طور پر پندرہ سالہ لڑکے میں منتقل ہوا لیکن تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ وائرس سعودی عرب کے راستے پاکستان منتقل ہوا اور پہلے ہی مرحلے پر ایک ہی خاندان کے پندرہ افراد کو متاثر کیا جس سے پتہ چلتا ہے یہ مقامی طور پر بہت تیزی سے پھیلتا ہے، سلسلہ ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وائرس کی جینیاتی ترتیب ووہان وائرس سے معمولی مختلف ہے اور اس میں کچھ جینیاتی تبدیلیاں عمل میں آئی ہیں۔

اس وائرس نے چین میں جنم لیا اور سعودی عرب کے راستے پاکستان منتقل ہوا، مزید برآں یہ بھی واضح رہے کہ یہ ایک ابتدائی تحقیق کا کیس ہےجبکہ ڈاؤ یونیورسٹی کے ماہرین کی ٹیم ان تما م نمونوں کے تجزیے میں مصروف ہے جو دوسرے ممالک بہ شمول ایران ، عراق اور شام برطانیہ و امریکا سے پاکستان منتقل ہوئے اور یہ ریسرچ ابھی جاری ہے۔