برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ

  • April 25, 2020, 1:29 pm
  • Featured
  • 161 Views

رمضان المبارک کا مہینہ نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ وہ قرآن مجید جو انسانیت کے لیے راہ عمل و نجات ہے۔ یہ ہدایت کی آسان اور عام فہم باتوں پر مشتمل ہے اور الفرقان یعنی حلال و حرام میں واضح فرق بتانے والی کتاب ہے۔ یہ قرآن مجید، جس کے نزول کی وجہ سے رمضان المبارک کا ماہ مبارک غارِ حرا میں پہلی وحی کے سال سے مبارک بن گیا تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے اس مہینے کو منتخب فرمایا ہے ’’ماہِ صیّام‘‘ کے طور پر ۔ گویا، اس طرح اس مہینے میں دو برکتیں جمع ہوگئیں۔ ایک نزول قرآن مجید کا مہینہ ہونے کی نسبت سے خصوصی برکات اور دوسرے اس ماہ کے روزے فرض ہونے پر اس ماہ کی سعادتیں۔

اس ماہِ مبارک میں نزول قرآن مجید کی برکات اور اﷲ تعالیٰ کی رحمتوں کی برسات کا آج بھی بہ چشم سر مشاہدہ کیا جا سکتا ہے، بہ شرطے کہ عبرت پذیری کا مادہ ہو، آنکھیں کھلیں ہوں، کان بند نہ ہوں، دماغ پر دنیاداری کا بُھوت سوار نہ ہو اور دل میں رشتے داریوں، کاروبار، مال، جاہ و حشمت اور حیثیت اور چاہت دنیوی کی شدید محبت نے ڈیرے نہ ڈال رکھے ہوں۔ دل کا اگر کوئی گوشہ اﷲ تعالیٰ کی محبّت کے لیے خالی بھی ہو اور اس میں ذوق و شوق کا جذبہ بھی، تو بہ ظاہر کوئی وجہ نہیں ہے کہ رمضان المبارک کی آمد پر ایسا انسان اﷲ تعالیٰ کی رحمتوں کے نزول کی کیفیات محسوس نہ کرسکے۔

رمضان المبارک کی ذہناً تیاری کرلیں اور اس ماہ رمضان المبارک کی برکتوں اور نزول قرآن مجید کی روح پرور کیفیات کے تجربے کے لیے مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق، حقیقت صوم وغیرہ کا مطالعہ فرمائیں اور رمضان المبارک کی آمد کا انتظار کریں۔ ماہ رمضان کا چاند دیکھنے کا بھی اہتمام کریں۔ اگر رمضان المبارک شروع ہوگیا ہے تو ہر مسلمان پر ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے، نماز میں دل جمعی، رجوع الی اﷲ، دعا میں حضوری کا احساس دامن گیر ہوجاتا ہے۔
رمضان المبارک کے چاند کے نظر آنے کی اطلاع آجائے تو یہ بات آپ کے مشاہدے میں آئے گی کہ اس ماہ رمضان کی خصوصی غیرمرئی، روحانی کیفیات ہیں اور نزول قرآن (ہدایت کے عام ہونے) کا مہینہ ہونے کے سبب ارواح انسانی، اپنے فطری جذبے کے تحت خود بھی اور اپنے ساتھ اجساد کو بھی گھسیٹے ایسی پرسکون جگہوں پر لارہی ہیں جہاں تازگی ہے، سُکون ہے، اطمینان ہے، انابت الی اﷲ کا ماحول ہے اور توبہ و استغفار کی دل خُوش کن صدائیں ہیں۔ یہاں پہنچ کر ارواحِ انسانی ایسا محسوس کرتی ہیں جیسے مچھلی پانی میں آگئی ہو اور مضطرب دلوں کو قرار آگیا ہو۔ یہی علامات نزول قرآن مجید کا مہینہ ہونے کی نشانیاں اور رحمتوں کے نزول کا عکس جمیل ہیں۔

اس ماہ کی دوسری برکت، جو ماہ صیام ہونے کی بنا پر ہے اس کا مشاہدہ بل کہ تجربہ ہرکس و ناکس اور ہر پیر و جوان کو ہوتا ہے مگر ہم اس پر توجہ نہیں کرتے اور اس پر قرار نہیں پکڑتے، ان لمحات کو امر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر مسلمان جب روزہ رکھتا ہے تو اُسے ایک ذاتی تجربہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر صبر، برداشت اور تحمّل پیدا ہوا ہے۔ بڑوں، نوجوانوں اور بچوں سب کو تجربہ یہ ہوتا ہے کہ صبح سحری میں کھانا پینا بند کرکے دل میں روزے کی نیّت کرنے کے بعد روزہ شروع کرتے ہیں، دوپہر میں کبھی انسان کو بھوک پیاس لگتی ہے، موسم سخت ہوتا ہے، گھر میں سامانِ خور و نوش موجود ہے، کبھی گھر میں انسان خود اکیلا ہوتا ہے، کوئی دوسرا نہیں ہوتا، مگر روزہ دار انسان (حتیٰ کہ نوعمر بچّے بھی) کچھ نہیں کھاتے پیتے کہ اُنہوں نے روزہ رکھا ہوا ہے اور روزے کی نیّت کر رکھی ہے۔

کھانا پینا سامنے ہو، اکیلا بھی ہو، بھوک بھی ہو مگر صرف روزے کی نیّت اور اس وجہ سے کہ اﷲ تعالیٰ دیکھ رہا ہے ایک انسان کھانے پینے سے بچتا ہے کہ روزہ رکھا ہوا ہے یہ احساس انسان میں خوداعتمادی پیدا کرتا ہے۔ انسان کو خود اپنے اندر پوشیدہ خودی کی طاقت اور قوّت ارادی کی اثر آفرینی کا حیران کن تجربہ ہوتا ہے کہ میں تو نیّت اور ارادہ کر لوں تو کھانے پینے سے بھی اجتناب کر سکتا ہوں۔ کھانا پینا تو زندہ رہنے کے لیے بہت ناگزیر ہے جب کہ دیگر غلط کام جن سے ذرا سی فوری لذّت حاصل ہوتی ہے اور وہ بھوک پیاس کی طرح انسان کو بے بس نہیں کرسکتے، ان کو چھوڑنا بھی میرے لیے ازحد آسان ہے۔ شرط یہ ہے کہ ارادہ کر لیا جائے یعنی سچّی توبہ کرلی جائے۔

اسی احساس کے تحت انسان اس ماہِ صیام میں ہفتہ عشرہ گزرنے پر توبہ کے بارے میں سوچتا ہے اور ہر ایک اپنی ہمّت کے مطابق آگے بڑھتا ہے۔ کوئی سستی دکھا جاتا ہے کوئی ہمت کرکے آگے نکل جاتا ہے۔اس ماہ کے اختتام تک کچھ لوگ توبہ کرکے گناہوں سے پاک صاف ہوجاتے ہیں، جب کہ کچھ لوگ جیسے آخر شعبان کو تھے رمضان المبارک کی مشقّت کے بعد پھر یکم شوال کو ویسے ہی ہوتے ہیں اور ساری محنت و مشقت و مجاہدات بے نتیجہ رہ جاتے ہیں۔

اﷲ تعالیٰ ہمیں اس ماہ رمضان کی برکات سے خلوص دل سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین