سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسی کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا

  • June 19, 2020, 1:28 pm
  • Breaking News
  • 115 Views

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے فریقین کی جانب سے دلائل مکمل ہونے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسی کی صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ نے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسی کیس کی سماعت کی۔ کیس کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ مختصر بریک کے لئے جا رہے ہیں، 4 بجے دوبارہ عدالت لگے گی اور اگر کسی ایک نقطے پر ججز کا اتفاق ہو گیا تو فیصلہ آج سنا دیں گے۔
دوران سماعت جسٹس فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک، سپریم کورٹ بار کے وکیل حامد خان، کے پی کے بار کونسل کے وکیل افتخار گیلانی اور سندھ بار کونسل کے وکیل رضا ربانی نے اپنے دلائل مکمل کیے جب کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے منی ٹریل سے متعلق دستاویز جمع کرادیں اور جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے زرعی زمین اور پاسپورٹ کی نقول بھی جمع کرادیں۔


وفاق کے وکیل فروغ نسیم نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے جج کی اہلیہ کی ٹیکس دستاویز سر بمہر لفافے میں جمع کرائی۔ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ عدالت ابھی اس لفافے کا جائزہ نہیں لے گی اور نہ ہی اس پر کوئی حکم جاری کرے گی، معزز جج کی اہلیہ تمام دستاویز ریکارڈ پر لاچکی ہیں، حکومت اس کی تصدیق کروالے۔

درخواست گزار کے وکیل منیر اے ملک نے موقف اپنایا کہ افتخارچوھدری کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل پر بدنیتی کے الزامات تھے، توقع ہے کہ مجھے جوڈیشل کونسل کی بدنیتی پر بات نہیں کرنی پڑے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ فروغ نسیم نے کہا ان کا اصل کیس وہ نہیں جو ریفرنس میں ہے، سمجھ نہیں آرہی حکومت کا اصل میں کیس ہے کیا، کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ آنے میں دیر کر دی، بد قسمتی سے فروغ نسیم غلط بس میں سوار ہوگئے ہیں۔

منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ حکومت ایف بی آر کے پاس جانے کے بجائے سپریم جوڈیشل کونسل آگئی، ایف بی آر اپنا کام کرے ہم نے کبھی رکاوٹ نہیں ڈالی، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اپنی اور عدلیہ کی عزت کی خاطر ریفرنس چیلنج کیا، چاہتے ہیں کہ عدلیہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس کالعدم قرار دے، سپریم جوڈیشل کونسل کے احکامات اور شوکاز نوٹس میں فرق ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل صدر مملکت کے کنڈکٹ اور بدنیتی کا جائزہ نہیں لے سکتی، سپریم جوڈیشل کونسل کا کام صرف حقائق کا تعین کرنا ہے، جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ شو کاز نوٹس کے بعد جوڈیشل کونسل کو آئینی تحفظ کا سوال بہت اہم ہے۔


جسٹس قاضی فائز عیسی کے وکیل منیر اے ملک نے اپنا جواب الجواب میں کہا کہ الزام عائد کیا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے جان بوجھ کر جائیدادیں چھپائیں جب کہ عدالتی کمیٹی کہتی ہے غیر ملکی اثاثے ظاھر کرنے سے متعلق قانون میں بھی ابہام ہے۔ منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کبھی اہلیہ کی جائیدادیں خود سے منسوب نہیں کیں، الیکشن اور نیب قوانین میں شوہر اہلیہ کے اثاثوں پر جوابدہ ہوتا ہے۔