ہاں مجھے بھی ڈر لگتا ہے

  • October 27, 2016, 8:06 pm
  • Entertainment News
  • 272 Views

نیویارک میں ٹھنڈ بڑھ گئی ہے، آج دفتر بھی نہیں گیا، گھر بیٹھ کر کام کی نیت کی مگر وہ بھی نہیں ہو پارہا۔ میرا دل کوئٹہ واقعہ کی وجہ سے بے چین ہے، خوفزدہ ہے، دہشت زدہ ہے۔
ہر تھوڑی دیر میں ایک پیغام آتا کبھی بتایا جارہا ہے کہ واقع میں ہلاک ہونے والوں میں سے نصف تعداد مکران ڈویژن کے نوجوانوں کی ہے، کبھی میسج آتا ہے کہ آپ کے گاؤں کے نوجوان کو بھی شدید دعاؤں کی ضرورت ہے۔
پولیس میں کون جاتا ہے؟ بلوچستان میں بیشتر ان غریب خاندانوں کے نوجوان جاتے ہیں جو بڑی محنت و مشقت کرنے کے بعد میٹرک اور ایف اے پاس کر پاتے ہیں اور پولیس ہی کو ایسا ادارہ سمجھا جاتا ہے جہاں انہیں سرکاری نوکری ملنے کی امید ہوتی ہے اور یہ فیصلہ ان کی قد و قامت اور دوڑ کی رفتار کرتی ہے کہ اُنہیں نوکری دینی بھی ہے یا نہیں۔
آدھی تعداد مکران ڈویژن سے تھی، وہ مکران جو پچھلے 10 سالوں میں شدید قسم کے انتشار اور دہشت سے گزر رہا ہے۔ جہاں خاموشی راج کرتی ہے، آدھے لوگ اپنی سیاست اور نظریے کی بنیاد پر مارو اور پھینکو کی پالیسی کا شکار ہوگئے اور آدھے اپنی وفاداریوں کی پاسداری میں مارے گئے۔ جو باقی رہ گئے وہ وطن چھوڑ گئے اور کچھ نے خاموشی اختیار کی اور کسی نہ کسی طرح چھوٹی موٹی نوکری یا روزگار کی تلاش میں زندگی گزارنے لگے۔
یقینی طور پولیس کی نوکری میں بھی آنے والوں اکثریت انہی لوگوں کی ہوگی جن کی یہ خوش فہمی رہی کہ انہوں نے فوراََ آگے جانے والی سیڑھی کا انتخاب بھی نہیں کیا اور سانپ کے ڈسے سے بھی بچ گئے۔ بس اب قدم بقدم آگے بڑھیں گے اور زندگی کا پہیہ آگے کھینچے گیں، اپنے لئے اپنے گھر والوں کے لئے۔
یہ 60 کے قریب نوجوان جو اب باقاعدہ اپنی سرکاری نوکری کا آغاز کرنے والے تھے، جن کے یقیناً کچھ خواب بھی ہونگے۔ زیادہ بڑے تو نہیں لیکن یقینی طور پر چھوٹے موٹے سے خواب، جیسے پہلی تنخواہ سے ماں کو پیسے دینے کا خواب، گھر کی چھت پکی کرانے خواب، یا ابا کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا خواب، یا پھر منگنی تو کم از کم کر ہی لونگا، اور اسی طرح کے بہت سارے غریبوں کے چھوٹے موٹے خواب، لیکن سب کو سب کی نظر لگ گئی اور زندگی بدلتے بدلتے رہ گئی۔
مجھے اس دن کا ڈر ہے، جس دن مجھے فون یا میسیج آئے گا کہ آپ کی بہن جس سردار بہادر خان یونیورسٹی میں پڑھتی ہے اس پر دوبارہ حملہ ہوگیا ہے، یا آپ کے ڈاکٹر کزن جس کوئٹہ کے سرکاری اسپتال میں پریکٹس کر رہے تھے، اُن پر قاتلانہ حملہ ہوگیا ہے۔ میرے عزیز دوست جو اس شہر میں ہیں جو اپنی اور دوسروں کی زندگی بدلنے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں وہ کسی دہشت گردی کے حملے کا شکار ہیں۔ یا پھر شاید میں خود جب 7 ماہ بعد امریکہ سے واپس پاکستان آجاوں گا تو کسی دن کسی لیاقت بازار میں دن دیہاڑے اس دہشت کا شکار ہوجاؤں۔
پہلے میں ایسا نہیں سوچتا تھا لیکن اب جب میں نے کفن میں لپٹے اپنے ان نوجوان کو خوابوں اور امیدوں سمیت دفن ہوتے دیکھا ہے تو یوں محسوس ہوا کہ انہوں نے بھی خواب دل میں رکھ کر یہ تھوڑی سوچا ہوگا کہ ان کے ساتھ یہ ہونے جارہا ہے۔ اس لیے میں اب ایک حقیقی سوچ کے تحت اقرار کررہا ہوں کہ اب میں زیادہ دیر بہادر بننے کی اداکاری نہیں کرسکتا۔
بس آپ سے گزارش ہے کہ جب خدانخواستہ ایسی کوئی کارروائی دوبارہ ہو تو خدارا! یہ مت کہئیے گا کہ اس نے وطن کے لئے قربانی دی ہے، یا یہ واقعہ فلاں ملک کی فلاں فلاں ایجنسی نے کروایا ہے، یا ہمیں پہلے ہی اطلاع تھی، یا اس سیاستدان کی اس تحریک کو ناکام بنانے کے لئے کیا گیا ہے۔ بس یہ مان لیجئے گا کہ یہ ایک غیر ذمہ دار ریاست کے غیرسنجیدہ اداروں کے بزدل اور نااہل لوگوں کی اور پوری قوم کی اجتماعی ناکامی ہے۔
یاد رکھیے گا کہ جینا ہر حال میں سب سے اہم ہے، وطن کے لئے مت مریں،

http://www.express.pk/story/636835/

قیصر رونجھا
قیصر رونجھا کا تعلق لسبیلہ بلوچستان سے ہے، سماجی تبدیلی کے لئے کو شاں ہیں بحیثیت نوجوان لیڈر مختلف غیر سرکاری اداروں سے جڑھے ہوئے ہیں